اسلام آباد : سپریم کورٹ نے بدھ کے روز سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں 2019میں خصوصی عدالت کی طرف سے سنا ئی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا۔ چیف جسٹس آف
پاکستان (سی جے پی )قاضی فائز عیسی کی سر براہی میں جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل چار رکنی بیچ نے سماعت کی ۔ 17دسمبر، 2019کو ، ایک خصوصی عدالت
نے سابق حکمران کو آئین کے آرٹیکل 6کے تحت سزائے موت سنائی جب ان کے خلاف پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این ) کے دور میں ان کے "غیر آئینی -"ہونے پر سنگین غداری کا مقدمہ درج
کیاگیاتھا۔ نومبر 2007میں ایمر جنسی نافذ کر نے کا فیصلہ ۔ 13جنوری 2020کو لاہور ہائی کورٹ (LHC)نے آرٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کیس کی سما عت کے لیے بنائی گئی خصو صی عدالت
کے فیصلے کو "غیر آئینی-"قراردیا۔ جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو پاکستان بار کو نسل اور تو فیق آصف سمیت کئی سینئر وکلا نے چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے آج سابق حکمرا ن کی جانب سے سزائے
موت کے خلاف دائر کی گئی اپیل پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے اسے سنائی گئی عدم تعمیل پر غیر مو ثر قراردیا۔ سپریم کورٹ نے سابق صدر کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف کے
ورثانے متعد دنو ٹسز پر بھی کیس کی پیر وی نہیں کی ۔ پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عدالت کی جا نب سے اپیل سننے کے فیصلے کے بعد انہو ں نے پر ویز مشرف کے اہل خانہ سے رابطہ کرنے
کی کو شش کی لیکن اہل خانہ نے انہیں کبھی جواب نہیں دیا ۔ عدالت نے لا ہور ہا ئیکورٹ کے فیصلے کو بھی کا لعدم قرار دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ لا ہور ہا ئیکورٹ کا فیصلہ خلاف قانون ہے۔