سستی بجلی اور گیس دینے کی بات پر عمل ممکن نہیں ہو گا، مفتاح
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سستی بجلی اور گیس دینے کی بات پر عمل کرنا ممکن نہیں ہوگا، نئی حکومت کی پہلی ترجیح آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ہونی چاہیے کیونکہ عالمی ادارے کے پاس جانا ناگزیر ہے۔سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس گڈ گورننس کا ٹریک ریکارڈ نہیں ہے، اس لیے نئی حکومت آتے ہی پورے ملک کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کی پہلی ترجیح آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ہونی چاہیے کیونکہ بین الاقوامی ادارے کے پاس جانا ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی حکومت کے لیے بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانا بہت مشکل ہے لیکن اس کی نجکاری کرنا نسبتا آسان ہے۔مفتاح اسماعیل کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں اداروں کی نجکاری اس لیے نہیں ہوسکی کیونکہ ہماری سوچ درست نہیں تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ پی آئی اے میں جو لوگ ہیں وہ ہمارے بھائی بہن ہیں۔انہوں نے بھارتی فضائی کمپنی ایئر انڈیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب ایئر انڈیا کو ٹاٹا کو فروخت کیا گیا تو انہوں نے 200 سے 250 نئے طیارے خریدے۔ اگر پی آئی اے کی نجکاری کرکے کسی اچھی کمپنی کو دے دیں تو 8کی جگہ 50ہزار آدمی اور ہوجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ وہ 300 یونٹ مفت بجلی دینے کی بات کر رہے ہیں، تو 80 فیصد سے زائد صارفین ہماری 300 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں، اس لیے وہ بنیادی طور پر کہہ رہے ہیں کہ آپ 80 سے 85 فیصد پاکستانیوں سے بجلی کے بل وصول نہیں کریں گے تو یہ نہیں ممکن ہو گا کیونکہ پیسے نہیں ہیں۔سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) والے بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم بجلی اور بجلی سستی کریں گے، لیکن مجھے ابھی سستی ہوتی نظر نہیں آرہی، جب آئی ایم ایف کا پروگرام آئے گا تو کہیں گے کہ 3 سال میںبجٹ خسارہ کم کریں اور جب آپ نے ٹیکس 10 ہزار ارب سے 15 ہزار ارب تک لے جانا ہے اور 3سال میں 50 فیصد بڑھانا ہے تو پاکستانی عوام چیخیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے زراعت اور جائیداد کو ٹیکس نیٹ سے باہر کر دیا ہے تاہم انہیں ٹیکس نیٹ میں لانا ہے، پاکستان میں دولت اور امیر لوگوں کی جائیدادوں پر ٹیکس لگانا ہے، امیر لوگوں پر ویلتھ ٹیکس لگانا ہے۔