ہم لوگ ابھی زندہ وبیدار کھڑے ہیں
برادر اسلامی ہمسایہ ملک کی تکرار کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کو بالآخر ایران کو جواب دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایک انسان کو یا تو ہیرو ہونا چاہیے یا پھر درویش۔ ایران کی طرف سے اسرائیل کو دھمکیوں کی دھمک تو ایسی ہوتی ہے جو ایک ہیرو کی جرات ہی تخلیق کرسکتی ہے لیکن عمل اس قدر منافقانہ کہ اسرائیل کی سمت ایک پٹاخہ چھوڑنا بھی گوارا نہیں۔ الٹا مرگ بر امریکا اور مرگ براسرائیل کے نعرے لگاتے ہوئے تین پڑوسی اسلامی ممالک پر راکٹ داغ دیے۔پیر 15 جنوری کو پاسدارانِ انقلاب نے عراق کے کرد علاقے اربی پر 11 بیلسٹک میزائل داغے تھے اور یہ دعوی کیا تھا عراقی کردستان میں ایران مخالف گروہوں نے پناہ لے رکھی ہے اور اسرائیلی موساد کے ٹھکانے ہیں جنہیں نشانہ بنانا ایران کے لیے ضروری تھا تاہم عراقی حکومت ایسے گروہوں کی موجودگی کی تردید کرتی ہے۔ اسی طرح پیر ہی کے دن پاسداران انقلاب نے شام پر میزائل حملہ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ اس نے وہاں شدت پسند گروہ نام نہاد دولت اسلامیہ کے ٹھکانے تباہ کیے ہیں۔ عراق اور شام میں دہشت گردی کے امکانات کو برباد کرنے کے ساتھ ہی اگلے روز منگل کی شب 16جنوری کو ایران نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر پنج گور کے قریبی علاقے سبزکوہ پر بھی میزائل اور ڈرون حملہ کردیا۔ اس حملے میں دوبچے جاں بحق اور تین لڑکیاں زخمی ہوگئیں۔ پاکستان کی طرف سے اس حملے کا جواب دینا ناگزیر تھا اس لحاظ سے کہ اسرائیل کو یہ دھیان رہے کہ پاکستان عراق اور شام نہیں ہے۔ اہلیان پاکستان کو علم رہے کہ کون ان کی حفاظت پر مامور ہیں۔
سوجائو عزیزو کہ فصیلوں پہ ہر اک سمت
ہم لوگ ابھی زندہ اور بیدار کھڑے ہیں
جب سے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات خوشگوار ہوئے تھے پاکستان اور ایران کے تعلقات تیزی سے بہتری کی جانب گامزن تھے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ایران کے حملے سے کچھ گھنٹوں قبل ہی پاکستان کے نگراں وزیر ِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے ڈیووس میں ایران کے وزیرِ خارجہ سے ملاقات کی تھی۔ ایک دن پہلے ہی ایران سے ایک اعلی سطحی وفد پاکستان آیا ہوا تھا۔ دونوں ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں بھی پچھلے دنوںجاری تھیں۔ پاکستانی اور ایرانی وزرائے خارجہ کی مختلف عالمی فورمز پر ایک دوسرے سے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔
دہائیوں سے پاکستان کو شکایت رہی ہے کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کے دہشت گرد ایران کی محفوظ پناہ گاہوں میں ہیں اور بار بار زور دینے کے باوجود ایران ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتا۔ کلبھوشن یادیو ایران سے بیٹھ کر ہی پاکستان کے خلاف آپریٹ کرتا رہا تھا۔ ایسی ہی شکایتیں جیش العدل کے باب میں ایران کو بھی رہی ہیں۔ دونوں ممالک نے معاملات کو بہر صورت الزامات سے آگے بڑھنے نہیں دیا اور ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی نوبت نہیں آنے دی۔ ایران کے خیال میں اگر کوئی مسئلہ موجود بھی تھا دونوں ممالک کے درمیان بے شماررابطے تھے جنہیں استعمال کیا جاسکتا تھا ایران کا میزائل حملہ یقینا پاکستان کی حدود کی پامالی اور اس کی حاکمیت اعلی کی خلاف ورزی تھا اس کے باوجود پاکستان نے تیس گھنٹے سے زائد وقت تک ایران کے ردعمل کا انتظار کیا۔ ایران سے اپنے سفیر کو واپس اور ایرانی سفیر کو پاکستان واپس نہ آنے کا کہنے پر اکتفا کیا لیکن سفارتی تعلقات ختم نہیں کیے۔ ایک کھڑکی کھلی رکھی۔ کہ ایران معذرت کرے اور وضاحت پیش کرسکے۔ایران کے وزیردفاع بریگیڈیئر جنرل محمد رضا آشتیانی نے معذرت اور وضاحت تو کیا کرنی تھی انہوں نے کاندھے اچکاتے ہوئے کیا کہا ذرا سنیے ایران دیگر ممالک کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے لیکن اپنی سلامتی کے دفاع کی کوئی حدود نہیں ہے۔ بدھ کو کابینہ اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو میں آشتیانی نے حملے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایران کے لیے خطرے پر کسی بھی جگہ سے ردِعمل دیں گے۔پچھلے دنوں میں پاکستان کی سرحدوں کے اندر سے ایران کے خلاف کون سے خطرناک حملے کیے گئے؟ کون سی دہشت گردی کی گئی؟ دہشت گردی کا کون سا بڑا واقعہ رونما ہوا تھا جس کے جواب میں ایران نے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی؟ یقینا نہیں۔ کیا اس کے بعد کوئی گنجائش رہتی ہے کہ ایران کو کرارا جواب نہ دیا جاتا۔ یہ جواب ناگزیر تھا لہذا یہ جواب دیاگیا۔جمعرات 18جنوری 2024 کی صبح پاکستان نے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے مخصوص ٹھکانوں پر انتہائی مربوط فوجی حملوں کا آغاز کیا۔ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر اس انتہائی منظم اور زبردست منصوبہ بندی سے کیے گئے آپریشن کے دوران اب تک کی معلومات کے مطابق نو دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ہندوستان کے میڈیا کے مطابق وہاں کے وزیر خارجہ جے شنکر اس وقت ایران میں موجود تھے جب ایران نے پاکستان کی سرحدوں کو پامال کیا۔ ہندوستانی میڈیا کی طرف سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ایران نے ہندوستان کے کہنے پر پاکستان پر حملہ کیا ہے۔ ہندوستان میں الیکشن بھی عنقریب ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نے پچھلے الیکشن میں بھی پاکستان کے خلاف محاذ گرم کرکے کا میابی حاصل کی تھی۔ اس مرتبہ بھی ان کے یہ ارادے نہ ہوں ایسا ممکن نہیں۔ مغربی محاذ پر افغان حکومت جس طرح پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی اعانت کررہی ہے وہ ایک مستقل دردسر ہے۔ تیسرا محاذ اب ایران کے ساتھ کھل رہا ہے۔ چوتھا محاذ خود پاکستان کے اندر موجود دہشت گرد گروپس ہیں جو آئے دن دہشت گردی کی وارداتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایک پانچواں محاذ بھی ہے یہ تحریک انصاف کے ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے اس موقع کو بھی پاکستانی فوج کے خلاف زہر پھیلانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا جیسے پاکستان کوئی دشمن ملک اور اس کی فوج کسی اور ملک کی فوج ہے۔ ایران کے حملے سے پاکستان کی ہزیمت پر وہ وہ بھنگڑے ڈالے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ دشمنی میں اس حد تک بھی جایا جاسکتا ہے؟ کل ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور یقینا کی جائے گی تو پی ٹی آئی کے ہمدردوں کے پیٹ میں درد کی لہریں اٹھیں گی۔
وہ اسرائیل جو ایران کے سائنس دانوں کو اس کے اندر گھس کر مارتا ہے وہ طاقت جو ایرانی جرنیلوں کو نشانہ بناتی ہے، شام میں ان کی ملیشیا پر حملے کرتی ہے وہ ایران سے محفوظ ہے حالانکہ غزہ کی صورتحال پر ایران کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ اسرائیل سے حساب برابر کرسکے غزہ کے مجاہدین کے ساتھ کھڑا ہوکر یہودی وجود پر حملہ آور ہو۔ اسرائیل کی طرف تو اسے میزائل چلانے کی تو فیق ہونہ سکی اس کے برعکس جب امت مسلمہ کے اتحاد کی ضرورت ہے وہ رہے سہے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کرنے کے درپے ہے۔ ایران کے پاکستان پر حملے سے کون خوش ہوسکتا ہے سوائے ہندوستان، امریکا اور مغربی یورپی عیسائی اور یہودی طاقتوں کے۔ ایسے میں اگر ایران کو قرار واقعی جواب نہ دیا جاتا تو پاکستان سب کے لیے غریب کی جورو بن جاتا۔ اس جواب نے ہندوستان سمیت پاکستان کے بہت سارے دشمنوں کو سوچنے اور محتاط رہنے پر مجبور کردیا ہوگا۔