دو الیکشن مسلسل متنازعہ رہے تو پارلیمنٹ کی کیا اہمیت رہ جائے گی،مولانا فضل الرحمان
دو الیکشن مسلسل متنازعہ رہے تو پارلیمنٹ کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔ 2018 کے الیکشن کے بعد ہمارا خیال تھا کہ 2024 کا الیکشن صاف اور شفاف ہوگا لیکن ایک بار پھر ہماری مرضی اور آئین کی بالادستی کو کچل دیا گیا ہے۔ مجھے اب یہ فکر لاحق ہو گئی ہے کہ اگر مسلسل دو انتخابات متنازع ہو گئے تو پارلیمنٹ کی اہمیت کیا رہ جائے گی۔اگر اسٹیبلشمنٹ براہ راست مداخلت کرتی ہے اور اپنی مرضی سے ایک حلقے سے نمائندے چنتی ہے تو وہ عوام کی نمائندہ نہیں ہوگی۔ ایسی پارلیمنٹ کیسی ہو گی جو انگلیاں اٹھائے گی کہ اسے بھی ایجنسیوں نے پاس کیا ہوا ہے، جس کو مخالف نظر آتا ہے اس پر کرپشن کے مقدمات درج کر لیے ہیں۔اس الیکشن میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پچھتر سال کی کرپشن کا ریکارڈ توڑ دیا، وردی والے عزت نہیں دیتے لیکن وردی والے کردار عزت دیتے ہیں۔ ہم جمہوریت کے علمبردار ہیں، ہمارے بزرگ اس آئین کے بانی ہیں اور ہم اس آئین کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، لیکن آئین کی کوئی حیثیت نہیں۔ آئین چند ٹکڑوں کا نام ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں، اکثریت کو بھی قرآن کے فیصلے بدلنے کا کوئی حق نہیں۔ ہماری پارلیمنٹ کی خودمختاری ہمارے ملازمین کی خودمختاری نہیں ہے۔ ہم اس نظام کے ساتھ کیسے چلیں گے؟ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ہم نے مل کر تحریک چلائی ہے، ان جماعتوں کے رہنما کنٹینرز پر ہوتے تھے اور ہمارے کارکن سڑکوں پر ہوتے تھے۔یہ 2018 میں بھی آپ کا مینڈیٹ تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ کل دھاندلی ہوئی اور آج دھاندلی نہیں، پی ٹی آئی کے پاس بھی وہی مینڈیٹ ہے جو 2018 میں ملا تھا۔ پی ٹی آئی سے پوچھتا ہوں کہ جب آپ حکومت بنا رہے تھے تو دھاندلی نہیں تھی اور آج دھاندلی ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ میں میری طاقت کسی اور کی مرہون منت ہے لیکن جب میں سڑکوں پر آں گا تو خود ہی آں گا۔ کارسی بنت حکومت کا کوئی فائدہ نہیں، ہم دھماکوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری فوج میں ملکی دفاع کی صلاحیت ہو۔غیر ملکی دشمن تو دور کی بات، 20 سال سے ملک کے اندر دہشت گردی ہو رہی ہے، دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور پتہ نہیں وہ کیا کر رہے ہیں۔ جب دفاعی قوت سیاسی قوت بن چکی ہے تو تنقید میرا حق ہے۔ کیا پارلیمنٹ اتنی بڑی مجبوری بن جائے کہ ہم اس کی رکنیت کے لیے اپنے جوتے چاٹتے رہیں؟