عدلیہ میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت، حکومت کا انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت نے عدلیہ میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت کے حوالے سے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کے بعد اٹارنی جنرل کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ تمام آئینی ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ ادارہ جاتی مداخلت کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اس سلسلے میں کمیشن انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن قائم کیا جائے گا۔ ابتدائی طور پر کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات کے بارے میں سب جاننا چاہتے ہیں۔ یہ تھا اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحب کی گونج جو ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بنی۔ اس تناظر میں گزشتہ روز چیف جسٹس نے فل کورٹ میٹنگ کی۔ چیف جسٹس کی درخواست پر وزیراعظم سے آج ملاقات ہوئی۔ وزیراعظم نے بھی صورتحال کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے خود جانے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس اور وزیراعظم کے درمیان ملاقات تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی جس میں اس اہم معاملے سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ خط کے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اس معاملے کی تحقیقات کرنا حکومت کا فرض ہے، جس کے لیے حکومت نے خط کے معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ معاملہ کل کابینہ کے سامنے بھی رکھا جائے گا اور پھر معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جائے گا، جس کے ٹی او آرز کابینہ سے مشاورت کے بعد طے کیے جائیں گے۔ تحقیقات کے لیے کئی ججوں کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے انکوائری کمیشن بنانے پر بھی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج سے درخواست کی جائے گی۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ تمام آئینی ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ ادارہ جاتی مداخلت کسی صورت قابل قبول نہیں۔ گزشتہ روز فل کورٹ میں کمیشن بنانے پر بھی بات ہوئی۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ معاملے کو 184/3 کے تحت لیا جائے۔ وزیراعظم سے ملاقات کی نوعیت انتہائی سنجیدہ تھی۔ عدلیہ آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔ چیف جسٹس اس ادارے کے آئینی سربراہ ہیں۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ججز کے خطوط سے کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے فوری ایکشن لیا۔ 13 مہینے پہلے کتنا اچھا ہوتا۔ جب ایسے معاملات سامنے آئیں تو ان پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے شفاف طریقے سے انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ پاک فوج کی قربانیوں کو سراہا جانا چاہیے۔ آپ کو ہمیشہ ان سلاخوں کو نہیں اٹھانا چاہئے۔ تمام اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ وزیراعظم کل تمام فیصلے کابینہ کے سامنے رکھیں گے۔ وزیراعظم انٹیلی جنس ایجنسیوں سے بھی پوچھیں گے اور ان کا ان پٹ لیں گے۔