سپریم کورٹ نے بلے کے انتخابی نشان سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بلے کے انتخابی نشان سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
38 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا۔
فیصلے کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرلی ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ کے مختصر فیصلے کو چیلنج کیا، پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی 14 شکایات پر فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا، تحریک انصاف نے اپنا موقف برقرار رکھا۔
انٹرا پارٹی انتخابات میں ارکان لاعلم رہے’ قانون کے مطابق انتخابی نشان نہیں دیا جا سکتا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو متعدد شو کاز نوٹسز جاری کیے، شو کاز کے باوجود پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان کو واپس لے لیا۔انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر انتخابی نشان واپس لیا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو بلے سے محروم کرنے کی ذمہ داری پارٹی امور چلانے والوں پر عائد ہوتی ہے، انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو اپنی پارٹی میں جمہوریت نہیں چاہتے، انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونا آئین و قانون کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔ جب الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات کے لئے سال کا وقت دیا اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی، اس وقت بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے، اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی حکومتیں تھیں، متعدد نوٹسز جاری کرنے اور اضافی وقت دینے کے باوجود تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے ۔ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا
سپریم کو رٹ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا، پشاور ہائی کورٹ کا 10 جنوری 2024 کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر 2023 کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے۔ بحال یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا کہا۔ 20 دن بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کچھ نہیں کر سکتا۔ پشاور ہائی کورٹ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کر دیا اور حتمی فیصلے کا انتظار بھی نہیں کیا، یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں لارجر بنچ کے سامنے زیر سماعت تھا، یہ صرف پشاور ہائی کورٹ کے سامنے سرٹیفکیٹ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ تھا، انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوئے. تو سرٹیفکیٹ کا مسئلہ کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے؟
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں الیکشن کمیشن کو مکمل اختیار حاصل ہے، پشاور ہائی کورٹ کی الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت اس کے اختیار سے تجاوز ہے، ہائیکورٹ 22 دسمبر کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کیسے غیر قانونی قرار دے سکتی ہے، واضح کرنے کے لئے.اگر کوئی شخص بلامقابلہ آتا ہے تو اسے منتخب سمجھا جاتا ہے، انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی میں اہم عہدوں پر فائز افراد پر سوالات اٹھتے ہیں، اگر سب بلامقابلہ منتخب ہو جائیں اور انتخابات کے شواہد نہ ہوں تو یہ الگ بات ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ عمر ایوب بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے خود کو پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جیسا اہم عہدیدار کہتے ہیں، گوہر علی خان خود کو پی ٹی آئی کا چیئرمین کہتے ہیں جب کہ ان کے پاس کوئی ٹھوس دستاویزی ریکارڈ نہیں ہے، گوہر علی خان خود کو پی ٹی آئی کا چیئرمین کہتے ہیں۔ بانی کی جگہ پی ٹی آئی کے چیئرمین پیش ہوئے، پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صرف سرٹیفکیٹ جاری کرنے تک محدود کردیا، ہائی کورٹ نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 (1) کو نظر انداز کردیا، الیکشن ایکٹ کے مطابق سرٹیفکیٹ انٹرا کے بعد ہی جاری کیا جاسکتا ہے۔ برطانیہ میں انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کوئی خاص قانون نہیں ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں سیاسی جماعتیں پارٹی انتخابات نہیں کرواتی، 2022 میں بورس جانسن نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفی دے دیا لیکن اپنی جانشین الزبتھ ٹرس کا تقرر نہیں کیا۔ ، رشی سونک کو شکست دے کر وزیراعظم منتخب ہوئیں، الزبتھ ٹرس کے استعفی کے بعد رشی سونک بلامقابلہ منتخب ہو گئے، انٹرا پارٹی انتخابات میں ووٹ کا حق وہی ہے جو عام انتخابات میں ووٹ کا حق ہے، امریکی سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
فیصلے کے مطابق کوئی بھی فریق دو مختلف عدالتوں میں کیس نہیں لے سکتا، ضابطہ دیوانی کی دفعہ 10 کے تحت 2 مختلف عدالتوں میں کیس لینے سے منع کیا گیا ہے، اگر ایک عدالت میں کیس ہے تو دوسری عدالت کیس کی کارروائی جاری نہیں رکھ سکتی۔ ایک فریق جو ایک ہی کیس کو دو مختلف ہائی کورٹس میں لے رہا ہے تو یہ قانون کی حکمرانی اور جوڈیشل پراسیس کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔