آج وہ بھی پروپیگنڈا کررہے ہیں جنہیں میری عدالت کے سوا کہیں سے ریلیف نہیں ملتا تھا، جسٹس اطہر من اللہ
نیویارک: سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ چاہتا ہوں جب بھی مارشل لا کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی ہوئی ہوں۔
نیویارک بار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں ٹی وی چینل کا نام لینا نہیں چاہ رہاجس نے عدم اعتماد کے وقت ایسا ماحول بنایا جیسے مارشل لا لگنے والا ہے، میں چاہتا ہوں جب بھی مارشل لا کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی ہوئی ہوں۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ جنہیں میری عدالت کے علاوہ کہیں سے بھی ریلیف نہیں ملتا تھا آج وہ بھی میرے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں، 2022 میں جو میرے خلاف پروپیگنڈا کر رہے تھے اب وہ تبدیل ہوگئے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے امریکا میں بار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہائبرڈ نظام حکومت اور جمہوری نظامِ حکومت میں عدلیہ کی آزادی کا الگ الگ تصور ہے، ججوں کی تعیناتی میں مجھے ایک جج کو منانے میں تین اور دوسرے جج کو منانے میں دو سال لگے۔
انہوں نے کہا کہ کاش عدالتیں 5 جولائی کو بھی کھلی ہوتیں جب ضیا نے منتخب وزیراعظم کوہٹایا تھا، کاش عدالتیں 12 اکتوبر1999 کوکھلی ہوتیں جب مشرف نے منتخب وزیراعظم کوباہرپھینکا، کسی نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو ہٹانیکی کوشش کی ہوتی تویہ امتحان اسلام آباد ہائیکورٹ کا ہوتا کہ وہ آئین کی بالادستی کیلییکھڑی ہوتی ہے یا نہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ جب میں نے ایک نوٹ لکھا تو میرے دو بیٹوں کا پرسنل ڈیٹا سوشل میڈیا پر ڈال دیا گیا، وہ ڈیٹا ایک سرکاری ادارے سے حاصل کیا گیا تھا، میری بیوی جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اس پر ایک ڈاکیومینٹری بنا کر حملہ کیا گیا،یہ ایک جج کی آزمائش ہوتی ہے، یہ ججوں کی آزادی کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر نے مزید کہا کہ جو لوگ 2022 تک میرے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے وہ اچانک تبدیل ہوگئے، آج پروپیگنڈا وہ کررہے ہیں جنہوں نے اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ سے فائدہ اٹھایا تھا، اس وقت انہیں ملک کی کوئی ہائیکورٹ ریلیف نہیں دے رہی تھی، یہ جج کا اصل امتحان ہوتا ہے جس سے جج اور عدالت پر عوام کا اعتماد بڑھتا ہے، تنقید سے جج کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ان ججوں پر کسی کو اعتراض نہ تھا مگر پورا نظام اِن سے خوفزدہ تھا اور حتی کہ وزیر اعظم بھی ان ججوں کی تعیناتی کی مزاحمت کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کے صدر آصف زرداری کے خلاف سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عہدے سے ہٹانا غلط تھا کیونکہ صدر کو آئینی استثنی حاصل تھا۔
سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ 9 مارچ 2007 کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کو جب آرمی ہاس میں نظر بند کیا گیا تو میرے ساتھی جسٹس یحیی آفریدی کے مشورے پر ہم نے حبسِ بیجا کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا، اور ہمارے وکیل جسٹس منصور علی شاہ تھے، رجسٹرار نے 12 اعتراضات لگائے اور پھر وہ درخواست کبھی نہیں لگی۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ تمام ججز کو معلوم تھا کہ ان کے چیف جسٹس گھر میں نظر بند ہیں مگر کسی نے وہ درخواست نہیں سنی۔
انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم پاکستان کے لیے بہترین تھی مگر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اِسے عدلیہ کی آزادی مخالف قرار دیا، اور پارلیمنٹ سے زبردستی 19ویں ترمیم کروائی اور یہ سب وکلا تحریک کے اصولوں کے منافی تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وکلا تحریک کے بحال ہونے والے ججوں نے نوجوان نسل کو بہت مایوس کیا، یہ ججوں کی بحالی کی نہیں آئین کی بحالی کی تحریک تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جنہیں میری عدالت کے علاوہ کہیں سے بھی ریلیف نہیں ملتا تھا آج وہ بھی میرے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، 2022 میں جو میرے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے تھے اب وہ تبدیل ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میمو گیٹ کیس اِس قابل نہیں تھا کہ سپریم کورٹ اس پر سماعت کرتی، وزیراعظم کو تاحیات نا اہل کیا گیا اور عہدے سے برطرف کیا گیا، وکلا تحریک اس مقصد کے لیے نہیں تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ چڑیا گھر کے ہاتھی، ایک ریچھ اور آوارہ کتوں سے متعلق کیس بھی سنے گئے، جنرل ضیا الحق کی خصوصی صلاحیتوں کی حامل بیٹی کی خواہش پر سری لنکا کی ریاست نے ایک ہتھنی سے اس کا ایک سال کا بچہ چھین کر ریاست پاکستان کے حوالے کر دیا گیا، اور اسے ایوان صدر کے عقبی صحن میں چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اس کے لیے اسلام آباد میں چڑیا گھر کی بنیاد رکھی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس غیر آئینی اقدامات یا آئین کی پامالی کو تحفظ دینے کا کوئی اختیار کبھی نہیں رہا اور اگر ججز ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔