ناسا مشن نے مریخ پر قدیم جراثیمی زندگی کے ممکنہ آثار دریافت کرلیے
امریکی خلائی ادارے ناسا کے مشن نے مریخ پر ایک ایسی دریافت کی ہے جس سے وہاں اربوں سال قبل جراثیمی زندگی کا اشارہ ملتا ہے۔ناسا کے پرسیورینس روور نے مریخ کی ایک قدیم دریائی وادی میں Cheyava Falls نامی چٹان دریافت کی۔
اس چٹان کے تجزیے سے ایسے نامیاتی مادے کے آثار ملے جو زمین پر قدیم جراثیموں کے فوسل سے ملتے جلتے تھے اور ایسے شواہد بھی سامنے آئے جن سے عندیہ ملا کہ کسی زمانے میں پانی اس چٹان سے گزرتا تھا۔کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنسدان کین فارلے نے بتایا کہ یہ چٹان بہت زیادہ پیچیدہ ہونے کے ساتھ بہت زیادہ اہم بھی ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ غیر حیاتیاتی عمل سے بھی چٹان میں ایسے آثار ظاہر ہو سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایک طرف تو ہم نے نامیاتی مادے کی موجودگی کو دریافت کیا ہے اور چٹان پر بنے رنگ رنگا دھبوں سے ایسے کیمیائی ردعمل کا علم ہوتا ہے جو ممکنہ طر پر جراثیمی زندگی کا نتیجہ ہو سکتا ہے جبکہ زندگی کے لیے ضروری پانی کے شواہد بھی ملے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دوسری جانب ہم ابھی یہ تعین کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ یہ چٹان کیسے بنی اور قریبی چٹانوں نے ان خصوصیات کے حوالے سے کس حد تک کردار ادا کیا۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ زمانہ قدیم میں مریخ ایک گرم اور پانی سے بھرپور سیارہ تھا اور اگر زندگی وہاں کبھی موجود تھی تو اس کے آثار چٹانوں کے اندر ہی نامیاتی مادے اور فوسلز ذرات سے ہی مل سکتے ہیں۔
روور کی جانب سے کیے گئے اسکینز سے معلوم ہوا کہ چٹان میں نامیاتی مرکبات موجود ہیں، اسطرح کے کاربن پر مبنی مرکبات کو زمین پر زندگی کی بنیاد مانا جاتا ہے، مگر یہ مرکبات غیر حیاتاتی عمل سے بھی بن سکتے ہیں۔