فضل الرحمان کی کابل میں افغان وزیراعظم سے ملاقات، افغان مہاجرین کے معاملے پر گفتگو
اسلام آباد: جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان علما کے ہمراہ کابل میں ہیں جہاں آج انہوں ںے افغان وزیراعظم ملا حسن اخوند سے ملاقات کی، دونوں جانب سے افغان مہاجرین کے معاملے سمیت پاک افغان دیگر مسائل پر بات چیت ہوئی۔اس ملاقات میں مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ مولانا عبدالواسع، مولانا صلاح الدین، مولانا کمال الدین، مولانا جمال الدین، مولانا سلیم الدین شامزئی، مولانا امداد اللہ، مولانا ادریس، ڈاکٹر عتیق الرحمان اور مفتی ابرار بھی تھے۔دوسری جانب امارت اسلامیہ افغانستان کے چیف جسٹس مولوی عبدالحکیم، وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی، وزیر ارشاد حج و اوقاف شیخ الحدیث مولوی نور محمد ثاقب اور بعض دیگر حضرات نے شرکت کی۔ کابینہ کے ارکان نے بھی شرکت کی۔ پاکستانی اسکالرز نے وفد سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بیرونی قبضے کے خلاف امارت اسلامیہ کو عظیم فتح حاصل ہوئی ہے افغانستان کے عوام کو مبارک باد دیتے ہیں، افغانستان میں اسلامی نظام مزید مستحکم ہوگا جس کی برکت سے اس کے مثبت اثرات پوری اسلامی دنیا تک پہنچیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دورہ افغانستان کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے، دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات، معیشت، تجارت اور باہمی ترقی میں تعاون کی راہیں تلاش کرنا ہے، جے یو آئی نے افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں کے رویے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے ہم اس قسم کے رویے کو غلط اور دونوں ممالک کے درمیان مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم یہاں خیر سگالی کا پیغام لائے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس سفر کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
افغان وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان دو ایسے ممالک ہیں جن کے مختلف شعبوں میں بہت سی مشترکات ہیں اس لیے ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا، افغانستان میں اسلامی نظام کی حکمرانی ہے، علمائے کرام ہر معاملے کو شریعت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ملا محمد حسن نے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان پاکستان سمیت کسی بھی پڑوسی ملک کو نقصان پہنچانے یا مسائل پیدا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، مسائل کے حل اور غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے علمائے کرام کا کردار اہم ہے، پاکستانی حکام کا افغان مہاجرین کے ساتھ اپنا ظالمانہ رویہ بند کرنا چاہیے کیونکہ اس قسم کے رویے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مخالفت اور مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے۔