سیاسی مکالمہ بازی اورمذاکرات کرنے چاہیے
ایک بات واضح ہیکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے.سیاسی عدم استحکام نے ملکی حالات کو پیچیدگی کی طرف دھکیل دیا ہے.یہ اور بات ہے کہ موجودہ گورنمنٹ اس بات کی دعویدار ہے کہ حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں.سیاسی عدم استحکام ہے یا سیاسی استحکام ہے،ان باتوں کو چھوڑ کر کچھ آگے کی طرف دیکھا جائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی مکالمہ بازی شروع کی جائے.سیاسی مکالمہ بازی کی اس وقت شدید ضرورت ہے.سیاسی مکالمہ بازی کامیاب ہوتی ہے یا نہیں،مگر ابتدا کر دینی چاہیے.حکومتی اراکین بھی شاید سمجھ رہے ہیں کہ سیاسی مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں۔سیاسی عدم استحکام سے ملک کمزور ہوتا ہے اور اداروں سے عوامی فاصلے بڑھتے جاتے ہیں.جب ادارے مضبوط ہوتے ہیں,تو سیاسی استحکام بھی آتا ہے اور معاشی استحکام بھی.اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ عوامی حکومت ہی سیاسی استحکام کا سبب بنتی ہے.سیاسی استحکام کے لیے مذاکرات یا سیاسی مکالمہ بازی ہوناضروری ہے۔تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔پہلے بھی کافی دیر ہو چکی ہیاور اس کا نقصان ملک پاکستان اٹھا چکا ہے.پی ٹی ائی کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ان کے بقول،ملک تباہ ہو رہا ہے،تو ملک کو تباہی سے بچانا ضروری ہے.ملک اگر اس زیادہ نقصان اٹھائے گاتو اس وقت کون سا تیر مار لیا جائے گا.اس بات کو بھی دیکھنا ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں،خصوصا وہ جماعتیں جو حکومت میں ہیں،سیاسی مذاکرات کے لیے کتنی مخلص ہیں؟تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ حالات کا مارا پاکستان کسی کیمفاد میں بھی نہیں ہے۔ملک اگر مزید پریشان کن صورتحال میں داخل ہو جاتا ہیتواس وقت حقیقی جمہوری جماعت بھی کچھ نہیں کر سکے گی۔ملک کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر ایسے اقدامات شروع کر دینے چاہیے،جس سے تنزلی کی طرف سفر رک سکے.اس لحاظ سے پاکستان خوش نصیب ہیکہ اس کے پاس ایٹمی قوت ہے،جو کہ ملک پاکستان کی دفاع کی ضامن بنی ہوئی ہے.ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے دشمنوں کے شدید حملوں سے بچا ہوا ہے،لیکن دوسری طرف یہ پوزیشن ہیکہ قرض کے لیے منتیں ترلے کیے جا رہے ہیں.تمام اداروں کی نجکاری کا بھی ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے.افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ ادارے بھی نجکاری کی زد میں آرہے ہیں جو منافع بخش تھے۔منافع بخش اداروں کو بیچنا پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے،حتی کہ ان اداروں کو بھی نہ بیچا جائے جو خسارے میں جا رہے ہیں,بلکہ محنت سے یہ منافع بخش ادارے بنائیجا سکتیہیں۔اگرنجکاری ضروری ہے تواس بات کا خیال رکھا جائے کہ نجکاری سے حاصل کیا گیا سرمایہ کرپشن کی نظر نہ ہو جائے بلکہ ملک و قوم کی بہتری کے لیے خرچ کیا جائے.نجکاری کے بعد حاصل ہونے والا سرمایہ تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سیاستعمال کیا جائے.اس مشاورت میں پی ٹی آئی کو خصوصی دعوت دی جائیاور ساتھ ہی دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی دعوت دینی چاہیے جو حکومت میں ہیں یا نہیں ہیں,مگر عوامی اثرورسوخ رکھتی ہیں۔اس طرح تمام جماعتیں ذمہ دار ہوجائیں گی.ان مذاکرات کے بعد کوئی جماعت دوسری سیاسی جماعت پر الزام تراشی نہیں کر سکے گی کہ یہ سب کچھ ان کا کیا دھرا ہے.اگر بغیر مشاورت کے سرمایہ خرچ کیا گیاتو لازما خرچ کرنے والی جماعت ذمہ دار ہوگی اور تنقید کی زد میں بھی آئے گی.اس کا انجام یہ ہوگا کہ وہ سیاسی جماعت جو ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہوگی,وہ سیاسی طور پر مردہ ہو جائے گی اور عوامی رد عمل بھی شدیدآئے گا.
بانی پی ٹی آئی اس وقت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ان پر ایک بات واضح ہو چکی ہوگی کہ اگر انہوں نے سیاسی عمل میں حصہ نہ لیا تو ملک میں پیچیدگیاں بڑھ جائیں گی۔حکومت کچھ لچک پیدا کر دیتاکہ پی ٹی آئی مکمل طور پر سیاسی مذاکرات میں حصہ لے سکے۔ان مشکل حالات میں تمام سیاسی پارٹیاں اپنے انا کو چھوڑ کر ملک کے مفاد کے لیے سوچیں.اگر یہ واضح ہیکہ پی ٹی ائی اگر ان سے کچھ زیادہ یا کم بھی عوامی مقبولیت رکھتی ہیتو اس کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ بھی ملک کے مفاد کے لیے کوئی کام کرے.قرضے حاصل کرنا یا اداروں کو بیچ دینا بہتر نہیں ہے،بلکہ اس سے معاشی کمزوری پیدا ہوگی,کیونکہ ان اداروں سے بے شمار ورکرزفارغ کر دیے جائیں گے.ہر ادارے کو بیچنا ضروری نہ سمجھا جائے. کسی بھی ملک کی بقا کا ضامن سیاسی استحکام ہوتا ہے.سیاسی استحکام ملک کی خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے.سیاسی استحکام تمام اداروں کو اپنے حدود میں کام کرنے کا پابند بناتا ہے.سیاسی مضبوطی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ مذاکرات کیے جائیں اور مذاکرات کے علاوہ قانون اور آئین کی دائرے میں رہ کر جدوجہد بھی کی جائے۔اگر کوئی غیر قانونی جدوجہد کرتا ہے یا انتشار پھیلاتا ہے تو اس کو قانون کے کٹہرے میں بھی لانا ضروری ہے.سیاسی استحکام ملک کے لیے اتنا ضروری ہے،جتنا آئین اور اس پر عمل ضروری ہے.سیاسی استحکام کے لیے کیے جانے والے مذاکرات سنجیدگی سے کیے جائیں.صرف مذاکرات ہونے نہیں چاہیے بلکہ ان پر عمل بھی ہونا ضروری ہے.سیاسی طور پرکسی کو نوازنا ضروری نہ ہو بلکہ قابل فردکوذمہ داریاں دی جانی چاہیے.پاکستان میں اقربا پروری یاخوشنودی کے لیے نالائق آدمی کو نواز دیا جاتا ہے جس کا نقصان پاکستان اٹھاتا ہے.پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں ملک کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور ان کا ارادہ ہے کہ ملک نقصان سے بچیتو ان کو ان مذاکرات میں شامل لازما ہونا چاہیے.یہ بات بھی ضروری ہے کہ حکومت بھی مخلص ہو.مذاکرات صرف سیاسی بیان بازی تک نہ ہوں بلکہ عملی طور پر بھی ہوتے نظرآئیں۔پی ٹی ائی والیبھی اپنیاندرلچک پیدا کریں.اگر وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ہم مضبوط بنا سکتے ہیں تو مذاکرات کی دعوت فوری طور پر ان کی طرف آنی چاہیے تاکہ حجت رہے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کی بجائے کوئی اور لائحہ عمل بہتر ہو،تو اس پر عمل کر دینا چاہیے.بات اگر مذاکرات سے آگے بڑھ جاتی ہیتو یہ نقصان کا باعث ہوگی.سیاسی طور پر ہر ملک اور معاشرے میں مذاکرات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے.بعض اوقات مذاکرات سے وہ بھی مفاد سمیٹے جا سکتے ہیں جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے.بہرحال سیاسی مذاکرات لازما ہونی چاہیے اور جتنی جلدی ہو سکیں شروع کر دینیچاہیے تاکہ کچھ بہتری کی طرف قدم بڑھائے جائیں.