اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارہ(ایف آئی اے) نیب پاکستانی کے اکانٹ سے جعل سازی کے ذریعے 41 کروڑ روپے چوری ہونے کے معاملے کی ابتدائی فرانزک رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانے کے سامنے پیش کردی جبکہ کمیٹی نے مجرمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ہدایت کردی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاس میں ہوا۔
جہاں اوورسیزپاکستانی کے اکاونٹ سے جعل سازی کے ذریعے 41 کروڑ روپے چوری کرنے کے معاملہ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں ایف آئی اے نے ابتدائی فرانزک رپورٹ خزانہ کمیٹی میں پیش کر دی ہے، ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کمیٹی کو کو بتایا ۔
نجی بینک کا عملہ اور ملزمان جعلی دستخطوں میں ملوث ہیں اور ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔
فراڈ میں بینک عملے کے تین اہلکار ملوث ہیں، تاہم معاملے کی مزید تحقیقات ہوگی جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ایف آئی اے سے 21 فروری کو دوبارہ رپورٹ طلب کر لی ہے۔
متاثرین نے کمیٹی کو بتایا کہ2017 سے جعلی چیک بک اور دستخطوں کے ذریعے بینک اکانٹس سے رقم نکالی جارہی ہے۔
پولیس اور بینک انتظامیہ کی جانب سے ہمیں ہراساں کیا جارہا ہے، ایک ہی روز میں اکاونٹ سے ٹیلی فون کی بنیاد پر ایک کروڑ 30 لاکھ روپے نکلوائے گئے۔
کمیٹی نے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ہدایت کر دی، جس پر ایف آئی اے حکام نے کہا کہ ایف آئی اے نے اس پر ابتدائی تحقیقات کی ہیں ۔
یہ فراڈ ہوا ہے، جعلی دستخطوں کے ذریعے صارف کے اکانٹ سے رقم نکالی گئی ہے اور41 کروڑ روپے نکالے جانے کے حوالے سے فرانزک کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔
9 چیک بکس جعلی دستخطوں کے ذریعے نکلوائی گئی ہیں، جس پر ایف آئی حکام نے بتایا کہ اس میں جو بھی ملوث ہوں گے، ان کو نہیں چھوڑیں گے۔
جن لوگوں پر صارف کو شک ہے ان کے نام ایف آئی اے کو دیے جائیں، جس پر قائم مقام سی ای او بینک نے کمیٹی اجلاس کے شرکا کو بتایا ۔
2022 میں بینک منیجر کے کردار کو مشکوک سمجھا گیا اور منیجر کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔
رقم قرض کے طور پر دی گئی، بینک نے تحقیقات کے بعد وہ قرض واپس لیا اور وہ رقم صارف کو واپس کردی گئی۔
ان سے دستخط لیے گئے ہیں جبکہ بینک نے صارف سے تمام تفصیلات مانگی ہیں اور اب تک وہ تفصیلات نہیں دی گئیں۔
سینٹر فاروق ایچ نائیک نے قائم مقام سی ای و بینک سے کہا کہ کوئی امریکا کا بینک ہے یا دوبئی کا ہم اپنی خودمختاری دا پر نہیں لگا سکتے۔
سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ ہم کسی بینک کی بدنامی نہیں کرنا چاہتے، 2017 سے یہ معاملہ چل رہا ہے اور کمیٹی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کسی کی جانب داری کی جائے۔
سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ بینک کو تحقیقات کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے، بینک کو ایف آئی اے سے پہلے تحقیقات کا موقع ملنا چاہیے۔
سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ ایف آئی اے تحقیقات کر رہا ہے، بینک ایف آئی اے کے پاس جائے جس پر متاثرہ بینک اکانٹ ہولڈرز کا کہنا تھا ۔
بینک کی جانب سے ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا گیا اور بینک اس معاملے کو دبانے کی کوشش کررہا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ایف آئی اے سے اس حوالے سے 7 روز میں رپورٹ طلب کرلی۔